اردو یونیورسٹی میں شعبہ انگریزی کی قومی کانفرنس کا اختتام ۔جناب محمد علی بیگ کا خطاب
حیدر آباد، 19؍ فروری ( پریس نوٹ) ۔ زبان اور مذہب دو مختلف میدانِ عمل ہیں
جو ایک دوسرے پر اثر انداز توہوتے ہیں لیکن ایک شعبہ دوسرے سے آزاد ہے۔ان
خیالات کا اظہار ممتاز تھیٹر فنکار ‘پدم شری جناب محمد علی بیگ نے کل شعبہ
انگریزی کی قومی کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے بحیثیت مہمانِ خصوصی خطاب
کرتے ہوئے کیا۔’’زبان‘ ادب اور معاشرہ‘‘ کے موضوع پر شعبہ کی چوتھی دو روزہ
کانفرنس کا 17 اور 18 فروری کو انعقاد عمل میں آیا۔ سی پی ڈی یو ایم ٹی
آڈیٹوریم میں اختتامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر کوئی
زبان کسی مخصوص مذہب سے جوڑ دی جاتی ہے تو اُس سے زیادہ زبان کی کوئی اور
بدخدمتی نہیں ہوسکتی۔ نرم گفتاری سے دل جیتے جاتے ہیں۔ شہرۂ آفاق شاعر جلال
الدین رومی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الفاظ صرف جامہ ہے اس میں
پوشیدہ جذبہ ہی لوگوں کے لیے کشش کا باعث ہے۔ خاموشی خدا سے منسوب ہے جبکہ
باقی تمام اسی خاموشی کا ترجمہ ہے۔ جناب محمد علی
بیگ نے اپنی تقریر میں
موثر ترسیل کی افادیت پر زور دیا۔ انہوں نے تھیٹر کا حوالہ دیا جہاں لفظوں
سے پرے بھی زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ زبان کی اس قسم میں خاموشی اور
جسمانی حرکات وسکنات شامل ہیں۔ مختلف شعبوں اور میدانوں کی اپنی نظریاتی
زبان اور اندازِ بیان ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پرسینما کی اپنی زبان ہے جبکہ
تھیٹر کی زبان اس سے مختلف ہے۔ یہ تمام زبانیں مل کر خود زبان کو سمجھنے
میں ہمیں مدد دیتی ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ تھیٹر نے الفاظ سے مبرازبان
کی ترویج اور تشہیر کے ذریعے ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر شگفتہ شاہین‘
صدر شعبہ انگریزی نے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے قومی کانفرنس کے شرکاء
کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کانفرنس میں ماؤنواز افسانہ نگاری سے
لے کر تقسیم ملک کے المیہ تک جسے ممتاز اردو افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے
بڑے موثر پیرائے میں پیش کیا تھا‘ مختلف موضوعات کا مقالہ نگاروں نے احاطہ
کیا ۔ڈاکٹر شگفتہ شاہین نے بتایا کہ جناب محمد علی بیگ جیسی شخصیت کی شرکت
نے کانفرنس کو ایک عملی جہت سے ہمکنار کیا ہے۔